top of page

عورت اور بیل



ree

عورت اور بیل میں کوئ فرق نہیں ہوتا ۔ اسے بھی کسی سہارے کی یا جذباتی وابستگی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ۔ اور ۔ ۔عورت کی جذباتی وابستگی کسی بیل کی مانند الجھی ہوئ اور مضبوطی سے لپٹی ہوئ ہوتی ہے۔ ۔ اس کا مقصد کسی زبردست درخت کا حصول نہیں ہوتا بلکہ پنپنا ہوتا ہے ۔لہذا اسے غرض نہیں ہوتی کہ درخت کیکر کا ہے یا ببول کا ۔ ۔ ۔اسے محض وابستگی چاہہے ہوتی ہے ۔بھلےبعد میں وہ ایک دیوار سے ہوتی ہوئ دوسری تک جا پہنچے یا تیسری تک ۔ ۔جیسے عورت کی وابستگی آخر میں اولاد سے ہو جاتی ہے ۔ ۔ اگر کوئ اس کو جڑوں سے اکھاڑنا چاہے تو اس کے ہاتھ کچھ نہیں آتا ۔ ۔ ۔ سوائے ایک مرجھائ ہوئ بیل کے ۔ نہ ہی اسے ایک جگہ سے نکال کر دوسری جگہ پروان چڑھایا جا سکتا ہے ۔ وہ اپنی مرضی سے سہارے کا انتخاب کرتی ہے ۔ ۔ ۔ اسے سہارا دینا چاہو تو اس کی جڑیں مت کھودو ،اسے ایک مضبوط سہارا بن کر دکھاؤ ،وہ خود بخود تم سے

وابستہ ہو جائے گی ۔ ۔ ۔بھلے تم پر کانٹے ہی کیوں نہ لگے ہوں ۔ ۔


کچھ عورتیں آکاس بیل کی طرح ہوتی ہیں ۔ ۔ جس کا سہارا لیتی ہیں،اسے تباہ کر دیتی ہیں ،وہ درخت اندر سے کھوکھلا ہو جاتا ہے ۔ ۔ایسی بیلیں ایک کے بعد ایک درخت کو کھوکھلا کرتی چلی جاتی ہیں ۔ ۔ بنا پشیمانی کے۔ ۔ ۔بنا پچھتاوے کے۔ ۔


کچھ عورتیں اس بیل کی طرح ہوتی ہیں جو سہاروں پر یقین نہیں رکھتی اور زمین پر ہی پھیلتی جاتی ہیں ،پھیلتی جاتی ہیں لیکن۔ ۔ ۔عارضی سہارے پسند نہیں کرتیں۔ ۔ ۔دوسری بیلیں اسے حقارت کی نگاہ سے دیکھتی ہیں ۔ ۔ اور۔ ۔ ۔سہارے خود اسے اپنی انا پر کاری ضرب سمجھتے ہیں کہ ان کی اہمیت سے انکار کیا گیا ؟ انہیں ٹھکرایا گیا ؟ لیکن یہ بیلیں عارضی سہاروں سے بے نیاز رہتی ہیں ۔ ۔انہیں ایک ہی سہارا چاہیے ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ایک مضبوط سہارا ۔ ۔ ۔

عورت اور بیل میں کوئ فرق نہیں ہوتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرح ظفر

 
 
 

Comments


© 2023 by Farrah Zafar
bottom of page